top of page

قرعۂ اندازی کے بعد کی سیاسی تصویر

  • Writer: MimTimes मिम टाइम्स  م ٹائمز
    MimTimes मिम टाइम्स م ٹائمز
  • 38 minutes ago
  • 4 min read
ree

17 November 2025


سینئر صحافی: سنیل شندے


ریاست کی بلدیاتی اداروں کے عام انتخابات مئی 2020 سے مختلف سیاسی، سماجی اور صحت سے متعلق مسائل کی وجہ سے رُکے ہوئے تھے۔ اب سپریم کورٹ کے سخت احکامات کے بعد یہ انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔


ہمارے پڑوس کی نوی ممبئی میونسپل کارپوریشن 9 مئی 2020 سے معطل ہے۔ اُس وقت کورونا کی شدید لہر کے سبب انتخابات مؤخر کیے گئے تھے۔ بعد ازاں ٹھاکرے حکومت نے وارڈ بندی میں اضافہ کیا، او بی سی کو سیاسی ریزرویشن دینے کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا، جس کے باعث ریاست کی تمام بلدیاتی اداروں کے انتخابات مزید آگے بڑھتے گئے۔


اسی طرح ایک کے بعد ایک کل 27 میونسپل کارپوریشنیں معطل ہوئیں —


۱) اورنگ آباد (28 اپریل 2020)


۲) نوی ممبئی (8 مئی 2020)


۳) وسئی ویرار (27 جون 2020)


۴) کلوا–ڈومبیولی (10 نومبر 2020)


۵) کولہاپور (15 نومبر 2020)


۶) ناگپور (4 مارچ 2022)


۷) تھانے (5 مارچ 2022)


۸) سولاپور (7 مارچ 2022)


۹) ممبئی (مارچ 2022)


۱۰) اکولہ (8 مارچ 2022)


۱۱) امراوتی (8 مارچ 2022)


۱۲) پِمپری–چِنچواڑ (13 مارچ 2022)


۱۳) پونے (14 مارچ 2022)


۱۴) ناسک (14 مارچ 2022)


۱۵) احمد نگر (2022)


۱۶) پربھنی (15 مئی 2022)


۱۷) لاتور (21 مئی 2022)


۱۸) مندرپور (28 مئی 2022)


۱۹) بھونڈی–نظامپور (8 جون 2022)


۲۰) مالیگاؤں (13 جون 2022)


۲۱) پانویل (9 جولائی 2022)


۲۲) میرا–بھائندر (27 اگست 2022)


۲۳) ناندیڑ–واگھالا (31 اکتوبر 2022)


۲۴) سانگلی–میرج–کوپواڈ (19 اگست 2023)


۲۵) جلگاؤں (17 ستمبر 2023)


۲۶) احمد نگر (27 دسمبر 2023)


۲۷) دھولیہ (30 دسمبر 2023)


ان تمام جگہوں پر کمشنروں کو ہی ایڈمنسٹریٹر مقرر کرکے سارا انتظام حکومت کے ہاتھ میں رہا۔ میونسپل کونسلیں، نگر پنچایتیں، سبھی برطرف تھیں۔


اب نگر پنچایت اور پنچایت سمیتی کے انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے، اور فارم جمع کرنے کی کل آخری تاریخ ہے۔ ممبئی سمیت 29 میونسپل کارپوریشنوں کے الیکشن شیڈول کا اعلان ابھی نہیں ہوا، لیکن 11 نومبر کو قرعۂ اندازی کے بعد پورا سیاسی منظر واضح ہوگیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں پوری طرح انتخابی تیاریوں میں جٹ گئی ہیں۔ نتیجے میں ریاست کے تمام مسائل پس منظر میں چلے گئے ہیں۔


ووٹر کو لبھانے کے لیے نئے حربے


انتخاب سے قبل ووٹروں کو خوش کرنے کے لیے مختلف اسکیمیں، خوبصورت نام اور بینک کھاتوں میں براہِ راست رقم جمع کرنے کا دور شروع ہو چکا ہے۔


مہاراشٹر میں “وزیر اعلیٰ لاڈکی بہن یوجنا” اور بہار میں “جیونیکا دیدی یوجنا” جیسی اسکیموں کے تحت بڑی تعداد میں رقم خواتین کے اکاؤنٹس میں جمع کی جا رہی ہے—وہ بھی اس کے بغیر کہ انہوں نے کوئی مطالبہ کیا ہو۔


ریاست پہلے ہی 9 لاکھ کروڑ سے زیادہ قرض کے بوجھ تلے دبی ہے۔ عوام کے ٹیکس سے جمع ہونے والی یہ سرکاری رقم ترقیاتی کاموں یا ہنگامی حالات کے لیے ہونی چاہیے، مگر اسے انتخابی لالچ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ حکومت سے کوئی سوال نہیں پوچھتا، اور اگر کوئی پوچھے تو فوراً ’’خواتین مخالف‘‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔


اگر انتخاب کے ایک دن پہلے کوئی امیدوار کھلے عام روپیہ بانٹتا ہے تو اسے جرم کیسے کہا جائے؟ جب حکومت خود انتخابات سے پہلے یہی کام کرتی ہے تو پھر ایک ہی جرم کے دو الگ معیار کیسے ہو سکتے ہیں؟ لیکن عدالت بھی از خود اس پر کارروائی نہیں کر رہی، یہ حیران کن ہے۔


اتحادوں کا بکھرنا — نہ مہایوتی رہے گی، نہ مہاوکاس اگھاڑی


گزشتہ چند برسوں سے ریاست میں دو بڑے اتحاد — مہایوتی اور مہاوکاس اگھاڑی — آمنے سامنے تھے۔ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں دونوں اتحاد مضبوطی سے لڑے تھے۔ لیکن بلدیاتی انتخابات میں صورتِ حال یکسر بدل گئی ہے۔


کانگریس نے مہاوکاس اگھاڑی سے الگ ہو کر تنہا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے، جو سب کے لیے غیر متوقع ہے۔ بہار میں دو ہندسے تک بھی نہ پہنچنے والی کانگریس اب مہاراشٹر میں سو بَل پر لڑنے کا اعلان کر رہی ہے۔


ممبئی میونسپل کارپوریشن میں کانگریس کی گھٹتی ہوئی طاقت —


1995 : اقتدار ختم


2002 : 61 کارپوریٹر

2007 : 75


2012 : 52


2017 : 31


ایسی مسلسل گراوٹ کے باوجود کانگریس کا اتحاد سے باہر آنا واقعی بی جے پی کو فائدہ پہنچانے والا قدم محسوس ہوتا ہے، جیسا کہ این سی پی (شرد پوار) نے الزام لگایا ہے۔


منسی (MNS) اور ٹھاکرے سینا کے درمیان بھی اب تک تال میل نہیں بیٹھا ہے۔


مہایوتی میں بھی سب کچھ ٹھیک نہیں—بی جے پی کو ممبئی میونسپل کارپوریشن کی مکمل کمان چاہیے، اسی لیے 150 وارڈ لڑنے کا اعلان کیا ہے، جبکہ شندے سینا پہلے 91، پھر 125 اور اب 100 وارڈ کا دعویٰ کر رہی ہے۔ اس سے اتحاد کے اندرونی اختلافات صاف ظاہر ہیں۔


بہت ممکن ہے کہ زیادہ تر جماعتیں یہ انتخاب آزادانہ طور پر لڑیں۔ اس کا فائدہ کس کو ہوگا، یہ بعد میں سامنے آئے گا، لیکن اگر مخالف جماعتیں متحد نہ ہوئیں تو بی ایم سی میں کون اقتدار سنبھالے گا، یہ سمجھنا مشکل نہیں۔


سابق کارپوریٹروں کی بے چینی


قرعۂ اندازی میں وارڈ بدلنے کے سبب کئی سابق کارپوریٹروں کی سخت بے چینی شروع ہوگئی ہے۔ خواتین کے لیے مخصوص وارڈ میں اپنی بیوی، بہن، بھابھی وغیرہ کو ٹکٹ دلانے کی کوششیں تیز ہو چکی ہیں، ساتھ ہی اپنے لیے متبادل وارڈ کی تلاش جاری ہے۔


شندے سینا میں شمولیت کے وقت کئی سابق کارپوریٹروں کو ٹکٹ کی یقین دہانی کرائی گئی تھی، مگر اب وہ اپنے پُرانے وارڈ بھی بچا نہیں پائے۔ یشونت جادھو، منگیش ساتمکر، پرمیشور کدم جیسے بڑے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔


بی جے پی میں روی راجا، ابھیجیت ساونت، کملیش یادو، اتُل شاہ، مکرند نارویکر وغیرہ کو بھی اپنے وارڈ تبدیل ہونے کی مشکل درپیش ہے۔


ٹھاکرے سینا میں تین سابق میئر ملند وایدیہ، وشاکھا راوت، سنیہل آمبیکر اپنے وارڈ کھو بیٹھے ہیں۔


اسی طرح آشیش چیمبورکر، سدا پرب، رمیش کورگاوںکر، وٹھل لوکرے کے وارڈ بھی تبدیل ہو چکے ہیں۔


کانگریس کے تجربہ کار، مضبوط اور معتبر کارپوریٹر آصف ذکیریا اور جاوید جنیجا کے وارڈ بھی تبدیل ہونے سے پارٹی کے لیے سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔


الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد ٹکٹ حاصل کرنے کی رسہ کشی، اندرونی سیاست اور ممکنہ پارٹی بدلنے کے مناظر یقیناً دلچسپ ہوں گے۔

  ( ترجمہ م ٹائمز )












bottom of page